(افسانہ) جزوقتی محبت

دفعتاً ناظر مجھے سپر اسٹور کے ایک گوشے میں نظر آیا۔ میں نے دوڑ کر اسے پکڑ لیا، مگر اس کی موجودہ حالت دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی، عجب خستہ حالت تھی۔ ”سر جھاڑ منہ پھاڑ“ کپڑے بھی ایسے شاید بغیر استری کیے ہی پہن لیے ہوں۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا ”یار! یہ کیا حالت بنا رکھی ہے، تم تو ہمارے آئیڈیل اور لوگوں کا مرکز نگاہ تھے۔ تمہیں میں نے کہاں کہاں تلاش کیا، تمہاری کامیاب محبت پر تمہیں مبارک باد بھی دینی تھی اور وہ راز بھی معلوم کرنا تھا کہ تم نے ایک خوب صورت پری کو قابو کرکے ایک اور گھر بسا لیا ہے۔ ہمیں بھی تو وہ گُر بتاؤنا یار۔

ناظر نے اِدھر اُدھر دیکھا سپر اسٹور کا یہ گوشہ ویران سا ہی تھا، ابھی ناظر نے اپنے دونوں کان پکڑے اور وہیں اٹھک بیٹھک لگانے لگا، پھر کسی کے قدموں کی چاپ سن کر وہ میرے گلے لگ کر سسکیاں بھرنے لگا۔

ظاہر ہے میں ورطہ حیرت میں ڈوب گیا۔ یہ کون سا ناظر ہے اور وہ کون سا ناظر تھا، جو محفلوں کی جان تھا۔ چالیس سال کی عمر میں ایک انتہائی پُرکشش انسان، جس کے اطراف ہر وقت فینز کی ایک بھیڑ رہتی تھی۔ اس بھیڑ میں سب ہی تھے، چاہنے والے اور والیاں۔ ہر معاشرے میں اپنے خوبصورت اور معیاری کلام کے باعث مرکزِ نگاہ۔ واہ واہ! کی اجتماعی گونج میں وہ مشاعرے لوٹ کر ہی گھر آتا۔ اس کی قربت میں رہنے والے فین اس کی شاگردی میں آگئے۔ اس کی ظاہری ٹپ ٹاپ کافی متاثر کن تھی ہی اور شاگردی استادی کا سلسلہ تادیر چلتا رہا۔ کچھ عرصے بعد محسوس ہوا کہ شاگردوں اور فینز کی تعداد بتدریج کم ہوتی دکھائی دی۔ شاید کچھ یا بہت سے شاگردی کا نصاب مکمل کر کے سبکدوش ہوگئے اور مزید سیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں رہی اور ایک وقت یہ آیا کہ اس کے اطراف چند فین ہی رہ گئے۔ آخر وہ دور بھی گزر گیا۔ یہ بھی سنا گیا کہ کچھ شاگردائیں ایک دوسرے کی برائیاں اور عیب جوئی میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے لگیں۔ آخر ایک خوب صورت شاگردہ کے بارے میں ایسا لگا کہ وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے اور زندگی بھر ساتھ رہنے کا عزم کر رکھا ہے۔

وہ جو ناظر کے پہلو بہ پہلو نظر آتی تھی، وہ ناظر کے ساتھ روپوش ہوگئی۔ وہ لوگ پس منظر میں کیا گئے کہ سینہ گزٹ سے یہ بات عمومی اطلاع بن گئی۔ وہ ایک دوسرے کے شریک حیات بن چکے ہیں۔ مجھ جیسے بہت سے رشک اور بہت سے حسد کا شکار تھے۔ مگر جب میاں بیوی راضی توقاضی بے چارہ صرف فیس کے پیسے بٹورتا ہے۔ مجھے تجسس تھا کہ اس کامیابی کا راز معلوم کیا جائے، آخر وہ کون سا نسخہ ہے جو ناظر کو ایک فین کا محبوبِ نظر بنا گیا۔ کیوں نا اس نسخے کو آزمایا جائے۔ آخر ادھر بھی کیا کمی ہے۔ میں نے فینز جمع کرنے کی جدوجہد پر کام شروع کردیا، لیکن وہی دھاک کے تین پات، شاعری میں وہ دم تھا ہی نہیں۔ یعنی اپنی چال ہی بھولنے لگا۔

میں ناظر کی تلاش میں اس کے گھر گیا، وہاں معلوم ہوا وہ عرصے سے گھر نہیں آیا بلکہ مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کی پہلی بیوی اور بچوں نے اس کی دوسری شادی کے بارے میں علم ہونے پر اسے گھر میں گھسنے ہی نہ دیا۔ اس کی نوکری بینک میں تھی، وہاں معلوم ہوا وہ یہاں سے تبادلہ ہو کر کسی اور برانچ میں گیا، نہیں معلوم کہاں؟

اور آج یہاں سپر اسٹور میں میرے کاندھے سے لگ کر سسکیاں لے رہا تھا۔ میں نے بہت سوال کیے، اس نے دوبارہ اٹھک بیٹھک کی پھر مجھے بتایا ”دوست! میں نے اچھا نہیں کیا۔ میرے بیوی بچوں نے گھر میں میرے داخلے پر پابندی لگا دی، مجھے اپنے جوان بچوں کے رشتے کرنے چاہیے تھے، مگر میری فین نے وہ روپ بھرا کہ میری خوش پوشی اور وضع داری کا روپ اس پر چڑھ گیا، اور میں اب کسی محفل میں منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہا۔ تم کبھی میرے نقش قدم پر چلنے کی کوشش نہ کرنا، سنا ہے تم بھی تو کئی محبتوں کے اسیر ہو۔ بس پارٹ ٹائم محبت ہی انجوائے کرو یہی ٹھیک ہے۔

2 تبصرے: