غزل
عجب تماشا ہے‘ ناپید ہو گیا ہے سکوں |
کہ سکّہ قدر یہاں کھو رہا ہے روز افزوں |
تلاشِ نان و جویں میں سبھی ہیں سر گرداں |
صدا ہے بھوکے کی جا کر گلہ میں کس سے کروں |
وہ جس کو دعویٰ رہا دھن سنبھالنے کا بہت |
فقط جہد ہے کہ کشکول آج کیسے بھروں |
بلند ہو گئی ہے قوم اس مقام تلک |
ہے خوف کیسے ضروریات پہ گروں کہ مروں |
جو دوست جان چھڑکتے تھے روز ملتے تھے |
ہے آج خاطر احباب کے نظر نہ پڑوں |
چلو کہیں کسی کٹیا میں جا گزارہ کریں |
ہے حکم مُک مکا جائیداد پہ ضرور کروں |
ابھی بھی آپ کو عرفان نہ سلیقہ ہوا |
خلاف باد نما جانا کب کہاں موزوں |
کوئی تبصرے نہیں