یکم مئی : کار گاہوں کی دائمی غلامی سے نجات کا دن
مارکس نے کہا تھا کہ ”کام
کے دن (اوقات کار) کو مختصر کرنا آزادی کی بنیادی شرط ہے۔“ مزدور طبقہ کی کام کے اوقات
کم کرنے کی جدوجہد صدیوں پر پھیلی لیکن نہ نظر آنے والی خانہ جنگی ہے۔ سرمایہ وقت کی
قید سے آزاد، محنت کو استعمال کا متقاضی ہے۔ سرمایہ اور مشین جس قدر کام پر لگیں گے،
مزدوروں سے فاضل قدر نکالنے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ اسی لیے سرمائے کی آزادی،
مزدوروں کے لیے غلامی یا موت تک کام کرنے کے مترادف ہے۔ کام کے اوقات کو محدود کیے
جانے کو سرمایہ دار غیر اخلاقی اور کام سے فرار کے طور دیکھتا ہے۔
اپنی شہرہ آفاق کتاب ”کیپیٹل“ میں مارکس بتاتا ہے کہ سرمایہ
ایک مردہ محنت ہے جو ڈریکولا کی طرح زندہ محنت کا خون چوسنے پر زندہ رہتی ہے اور جتنا
زیادہ زندہ رہتی ہے اتنی زیادہ محنت کا خون نچوڑتی ہے۔ آلات پیداوار کی مسلسل ترقی،
بے روزگاروں کی ریزرو فوج کے علاوہ اوقات کار کی غیر محدودیت سرمایہ داری کی بد روح
کا خاصہ اور جان ہے۔ اوقات کار پر سرمایہ دار کا کنٹرول اس کی بقا کا ضامن ہے، آلات
کی طرف اوقات کا طریقہ کار بھی مسلسل شکلیں بدلتا ہے۔
چودھویں صدی کے نصف سے لے کر سترویں صدی کے آخر تک سرمایہ
دار نے قانونی طور پر کام کے اوقات کو غیر محدود کیے رکھا۔ بچے، عورتیں اور نوجوان
مزدور پندرہ سے سولہ گھنٹے اور بعض شعبوں میں تو بیس گھنٹے روزانہ غیر انسانی ماحول
میں کام پر مجبور رہے۔ سرمایہ دار کا مزدوروں کی زندگیوں اور ان کے وقت پر مکمل کنٹرول
تھا، ” سفید غلامی کے بھیانک دور میں سرمایہ دار جس قدر چاہتا مزدور کی محنت سے قدر
زائد کشید کرتا۔ یہاں تک کہ انگلستان میں اٹھارہ سو تینتیس میں پہلی بار فیکٹری ایکٹ
کے تحت کام اوقات پندرہ گھنٹے تک محدود کر دیے گئے جو طویل مزدور جدوجہد کے بعد
1847 میں بارہ گھنٹے کر دیے گئے۔
صنعتی دور کی تاریخ میں پہلی
بار آسٹریلیا کے مزدور خود اپنے طور روزانہ آٹھ گھنٹے کام کے مطالبہ کے لیے 21 اپریل
1856 کو کام مکمل بند رکھا۔ اس دن مزدوروں کے اتحاد اور یک جہتی نے انہیں ایک نئی توانائی
اور قوت فراہم کی۔ اسی روایت سے ہمت پا کر امریکا کے مزدوروں نے بھی کام کے اوقات میں
کمی کی تحریک کو فتحیاب کرنے کے لیے یکم مئی 1886 میں احتجاج کیا، جسے خون میں نہلا
دیا گیا لیکن 1889 میں منعقدہ انٹرنیشنل ورکرز کانگریس میں شریک دنیا بھر سے چار سو
مندوبین نے یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور منانے کا اعلان کیا اور آٹھ گھنٹے
کام کو پہلے مطالبہ کے طور رکھا، یوں پہلی بار 1890 میں اس دن کے منانے کا آغاز ہوا۔
یوں یکم مئی کا دن محنت کش طبقہ کی سرمایہ دارانہ جبر کے خلاف مزاحمت کی طویل جدو جہد
کا استعارہ بن گیا۔
امریکا کے شہر شکاگو میں
آج سے 123 برس پہلے جس صنعتی اور اجرتی غلامی کے خلاف مزدوروں نے اپنے خون سے جدوجہد
کی تاریخ رقم کی تھی، وہ تحریک آج بھی جاری ہے۔ دنیا بھر میں مزدور سرمایہ کی بالا
دستی کے خلاف سیاسی و معاشی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جس جبر و لوٹ مار کے خلاف شکاگو میں مزدور
سراپا احتجاج تھے وہ بد ترین صورتحال آج بھی پاکستان کے مزدوروں کو درپیش ہے۔ فیکٹری،
کارخانوں اور کار گاہوں میں مزدور کے اوقات کار غیر انسانی اور حالات زندگی بد سے بد
تر ہو چکے ہیں۔ حکمران طبقات اپنی پالیسیوں سے محنت کشوں میں باقی خون کا آخری قطرہ
بھی نچوڑنے کے در پے ہیں۔
سرمایہ داروں کی ایماء پر حکومت اور حکومتی ادارے مزدوروں
کا ہر بنیادی انسانی اور قانونی حق سلب کر چکے۔ فیکٹریاں، کارخانے اور کار گاہیں بندی
خانے بنے ہوئے ہیں۔ مزدور جدید دور کے غلام بنے سرمایہ داروں کے لیے دولت کے لیے انبار
لگانے کی مشین بنا دیے گئے ہیں ، وہ جتنی زیادہ دولت پیدا کرتے ہیں، اتنی ہی تیزی سے
غربت کی دلدل میں دھنسے جاتے ہیں۔
مزدور طبقہ سماج، پیداواری
عمل اور ترقی و تمدن کا سب سے اہم مرکز و منبع ہونے کے باوجود خود زندگی کی بنیادی
سہولیات سے یکسر محروم ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ دس کروڑ سے زائد محنت کش حاصل شدہ اجرت
سے آٹے، دال، چاول، دودھ، خوردنی تیل اور سبزی جیسی بنیادی ضروریات زندگی بھی نہیں
خرید سکتے۔ جبکہ موجودہ آمدن میں بجلی، گیس، علاج معالجہ اور تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات
پورا کرنا ناممکن ہو گیا ہے اور حکمران ہیں کہ انہیں سے مزید قربانی کے نام پر رہی
سہی جینے کی رمق بھی چھیننے پر تلے بیٹھے ہیں۔ حکمران کوئی بھی ہو، کسی بھی جماعت سے
ہو وہ محنت کش دشمنی میں کسی سے بھی کم نہیں، اس کا اندازہ حالیہ برسوں میں درپیش صورت
حال سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ حکومت کسی بھی جماعت کی ہو لیکن
فیکٹری مالکان سرکاری اعلان کردہ کم از کم اجرتیں دینے سے انکاری ہیں۔ ورکرز کو پینشن
اور سوشل سیکیورٹی سے رجسٹرڈ نہیں کرتے۔ تحریری تقرر نامہ کی فراہمی کو نا ممکن بنا
دیا گیا ہے۔ یونین سازی اور اجتماعی سودا کاری جرم بن گیا ہے۔ سالانہ بونس اور منافع
میں 5 فیصد محنت کشوں میں تقسیم کی بات خواب بن کر رہ گئی ہے۔ غیر قانونی، غیر انسانی
ٹھیکیداری نظام ہر سو مسلط ہے۔ سرمایہ کے اس جبر کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو طاقت
کے بل پر دبایا جا رہا ہے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور حکمرانوں کے مفادات
پر مبنی ملکیتی نظام نے سیاست و معیشت کو اپاہج بنا دیا ہے۔
حکمران اشرافیہ کی پالیسیوں
کے نتیجے میں ملک درحقیقت دیوالیہ ہو چکا ہے۔ حکمران طبقات، ان کی نمایندہ جماعتیں،
ریاستی اداروں، پارلیمنٹ اور عدلیہ کی سات دہائیوں پر محیط بد عملیوں کے بھیانک نتائج
23 کروڑ عوام بھگت رہے ہیں۔ آج ملک بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا غلام اور عالمی
بھکاری بن چکا ہے۔ ملک کی آدھی آبادی جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ غربت
، افلاس بیماری ، جہالت اور بیروزگاری عروج پر ہے اور حکمران ہیں کہ اپنے مفادات کے
لیے دست و گریباں ہیں۔ محنت کشوں کے اتحاد کو انہی حکمران طبقات نے اپنے جرائم کی پردہ
پوشی کے لیے نسل، لسان، مذہب اور فرقے کی بنیاد پر نہ صرف تقسیم کیا ہے، بلکہ اپنے
مفادات کا ایندھن بھی بنا رکھا ہے۔
معروف اطالوی مارکسی دانشور
گرامیچی کے مطابق حکمران طبقہ اپنی بالادستی کے نظریات ایک غیر مرئی طریقہ کار سے پورے
معاشرے میں پھیلا کر یقین دلاتا ہے کہ یہ نظریات شک و شبہ سے بالاتر ہیں اور خاص طور
پر مزدور طبقہ کے لیے مسلسل ابلاغ و نمائش کے ذریعے معمول بنا دیتا ہے۔ یہ حکمران طبقہ
کی بالا دستی کا وہ تصور ہے جو اسے بغیر کسی جبر کے مزدور طبقہ پر اپنا تسلط قائم کرنے
کے قابل بناتا ہے کہ مزدور طبقہ کے افراد ایسے نظام کی حمایت کرتے ہیں جو ان کے استحصال
کا باعث ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کی صورتحال ایسا ہی منظر پیش کر رہی
ہے۔ چند ایک استثناء کے ساتھ انقلابی دانش حکمران طبقات کے سامنے ہتھیار پھینک چکی،
انقلابی سیاست اور طبقاتی تنظیم سازی تمام تر امکانات کے باوجود گزرتے وقت کے ساتھ
بوجوہ غیر متعلقہ ہوئے جا رہی۔ انقلابی دانش، انقلابی پارٹیوں، طبقاتی تنظیموں خصوصا
ٹریڈ یونینز کی محنت کش طبقہ سے جڑت کم زور ہونے کی بنا پر بڑی سماجی تبدیلیوں کے مطالبات
سیاسی منظر نامہ پر موجود ہی نہیں۔
اس صورت حال سے نکلنے کا راستہ محنت کش طبقہ کو خود بحیثیت
طبقہ ہی تلاش کرنا ہے اور ان کے لیے رہنمائی کے لیے مزدور طبقہ کی درخشاں نظری تاریخ
اور طویل جدوجہد مشعل راہ ہے۔ محنت کشوں کے حقوق کے حصول و تحفظ کا واحد راستہ بلا
تفریق رنگ، نسل، مذہب اور فرقہ محنت کش طبقہ کا شعوری اتحاد اور حکمران طبقہ کی ہر
شکل سے نفرت سے ہی ممکن ہے، اگر محنت کش عوام دشمن حکمران طبقات سے نجات چاہتے ہیں۔
فیکٹریوں کارخانوں اور کار گاہوں میں غلامی کے نظام کا خاتمہ اور سماج کی آزادی کا
عزم رکھتے ہیں تو یکم مئی کے مزدور شہدا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مزدور تحریک میں منظم
ہوں تاکہ جبر پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام سے نجات مل سکے۔
کوئی تبصرے نہیں