اک برس
اِک برس کیا ہے فقط بارہ مہینے ہی تو ہیں |
آدمی خوش ہو کہ ناخوش ہو گزر جاتے ہیں |
ہاں مگر اپنی محبت کے تقدس کی قسم |
جن کے محبوب بچھڑ جائیں وہ مر جاتے ہیں |
اک برس کیا ہے فقط بارہ مہینے ہی تو ہیں |
میں بھی ان بارہ مہینوں میں بہت رویا ہوں |
سوختہ لاشوں کی بُو یاد سے جاتی ہی نہیں |
سانس لیتا ہوں تو کھول اُٹھتا ہے ہر قطرہ خوں |
اِک برس کیا ہے فقط بارہ مہینے ہی تو ہیں |
اُس نے بھیجا تھا جو اِک پھول‘ وہ تازہ ہے ابھی |
میں جسے دل کی تسلی کے لیے رکھتا ہوں |
اپنی میت پہ کبھی‘ ساری رعیت پہ کبھی |
کوئی تبصرے نہیں