الیکشن، سیاسی گہما گہمی
پاکستان میں الیکشن آٹھ فروری کو ہونے جا رہے ہیں۔ الیکشن اس لیے ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ اس کی گارنٹی سپریم کورٹ نے لی اور صدر پاکستان اور الیکشن کمیشن سے اس کی انڈر ٹیکنگ لی گئی۔ پاکستان کی تاریخ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک تاریخ بنا رہے ہیں۔ ان کے فیصلے اور ریمارکس ان کی عدالتی نظام کو دوبارہ قابل اعتبار اور غیر متنازع بنانے کی قابل رشک کوشش ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں سابق وزیر اعظم و قائد عوام پی پی پی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کی دوبارہ عدالتی کارروائی بھی ایک نئی مثال ہے، وہ ایسے کیس نمٹانے جا رہے ہیں جن کے تاریخ ساز فیصلے متوقع ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ پارلیمنٹ، عدالت، ایوان بالا، ایوان مقننہ، سب کی لمٹ پر یقین رکھتے ہیں، جبکہ گزشتہ ادوار میں سپریم کورٹ یکطرفہ کردار کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پی ٹی آئی دور حکومت میں متنازعہ بنانے ان کا چیف جسٹس بننے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے فروغ نسیم کو متنازعہ بنا دیا گیا۔ گوکہ بعد میں فروغ نسیم بھی معذرت پر مجبور ہوئے، لیکن یہ ایک جمہوری ڈکٹیٹر کی خواہش پر ہوا تھا، لیکن قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے وقار کو بڑھا کر عدالتی نظام کو بہترین رخ پر لگا دیا۔
اب بات کرتے ہیں نگراں وزیر
اعظم انوار الحق کاکڑ کی جو دبنگ گفتگو اور وطن پرستی کی شاندار مثالیں قائم کر رہے
ہیں۔ بلوچستان میں بھارتی را اور مودی سرکار کے ایجنٹوں اور پاکستان مخالفین کے لیے
ان کے وطن پرست جذبات قابل تعظیم ہیں۔ ان کا دبنگ اعلان کہ نہ 1971ہے اور نہ بنگلہ
دیش بننے جا رہا ہے۔ پاکستان کی حفاظت کا عزم بہترین سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ نگراں وزیر
اعظم کی طرح وفاقی وزیر خارجہ کی حیثیت سے بلاول بھٹو بھی مودی کو گجرات کا قصائی کہنے
اور اسلامو فوبیا پر مدلل گفتگو کرچکے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں اور کشمیر کا بھرپور مقدمہ
لڑ چکے ہیں۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ بھی فلسطین کے مسئلہ پر دھواں دار موقف
دے چکے ہیں۔ کشمیر پر بھی قائد اعظم کی فکر و فلسفہ کے مطابق بات کی جا رہی ہے، لیکن
ظالم امریکا جو بار بار امن کی کوششوں اور جنگ بندی پر ویٹو کا ہتھیار استعمال کر کے
اسرائیل کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ اس کے بدترین نتائج نکل سکتے ہیں۔ ویٹو پاور کا
حق اب بدلنا چاہیے یہ آمریت اور ظالمانہ نظام ہے جو انسانیت کی تذلیل اور ہیومن رائٹس
کی خلاف ورزی کو ہوا دے رہا ہے۔ غیر اسلامی ممالک کو جرات مندانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
او آئی سی ڈر اور خوف کے بجائے فیصلہ کن اجلاس منعقد کرے۔ آیت اللہ خمینی اور ایران
جیسے دبنگ ملک کو بڑے کردار پر آنا ہوگا۔ مظالم بچوں کے قتل اور مسلمانوں کی شہادتوں
کا نہ رکنے والا سلسلہ یہ بتا رہا ہے کہ اقوام متحدہ کی کوئی وقعت نہیں رہی۔ عالمی
عدالت انصاف بھی فراڈ نظر آرہی ہے۔ کلبھوشن یادیو کے لیے عالمی عدالت ہے لیکن فلسطین
کے مسلمانوں کے لیے نہیں۔ بیت المقدس کی یہودی توہین کر رہے ہیں، لیکن معیشت اور مفادات
کی سودا گری میں اسلامی ممالک صرف زبانی کلامی باتوں تک محدود ہیں۔ دنیا کے نقشے پر
دو ہی نظریاتی ملک ہیں ایک پاکستان اور ایک اسرائیل لیکن اسلام کے نام پر بننے والے
ملک کو مستحکم کرنے کے بجائے سعودی عرب جیسے ممالک بھی بھارت میں سرمایہ کاری کر رہے
ہیں، اگر پاکستان کو خطے میں مضبوط کیا جائے اور اس میں سرمایہ کاری کی جائے تو اسرائیل
جیسے ملک مسلمانوں کی توہین نہ کرسکیں۔ تیسری عالمی جنگ کے خطرات امریکا کی خطے میں
دہشت گرد اسرائیل کی سرپرستی کی وجہ سے ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی گہما گہمی میں
فلسطین کا دکھ سیاسی پنڈت بھول گئے ہیں۔ ان کے ایجنڈے میں عالم اسلام کے لیے بھی واضح
پالیسی ہونی چاہیے۔
جہاں تک سیاسی گہما گہمی ہے تو اس کے متعلق عرض ہے کہ ملک کا سیاسی درجہ حرارت تیز ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی، (ن) لیگ، ایم کیو ایم، مہاجر قومی موومنٹ، جماعت اسلامی، تحریک لبیک، سنی تحریک، پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار میدان میں آگئے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے لیے مسائل پیدا کرتے ہوئے تاجر برادری کو توڑ لیا ہے اور تاجر و میمن برادری کے رضوان عرفان کو کراچی سے صوبائی اسمبلی کا بلڈرز میں ایس ایم نقی کو سندھ اسمبلی کے لیے ضلع وسطی سے، ایم کیو ایم سے پی پی پی میں شامل ہونے والے خواجہ سہیل منصور کو قومی اسمبلی کے لیے، سمیتا افضل سید اور ہیر سوہو کو مخصوص نشست سندھ اسمبلی کے لیے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایم کیو ایم کو دوسرا بڑا جھٹکا سنی تحریک اور تحریک لبیک نے یکجا ہوکر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ علامہ شاہ احمد نورانی کے صاحبزادے اویس نورانی بھی الیکشن لڑیں گے۔ (ن) لیگ نے بھی ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر اہم نشستوں پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس مرتبہ مذہبی جماعتوں کا الیکشن میں لڑنے کا فیصلہ ایم کیو ایم کے لیے مسائل پیدا کرے گا جبکہ حیدرآباد میں بھی بڑے بریک تھرو ہوں گے۔ پی ٹی آئی کے فردوس شمیم نقوی بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے۔ حیدر آباد میں ایم کیو ایم کے لیے مسائل کم ہیں، جبکہ میر پور خاص میں پی پی پی کے باغی ایم پی اے علی نواز شاہ، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے ساتھ مل کر الیکشن لڑیں گے۔ یہاں سے تین بار چیئرمین میرپورخاص رہنے والے فاروق جمیل درانی، انیس ایڈووکیٹ پی پی پی میں شامل ہوچکے ہیں جبکہ فاروق جمیل درانی کے بھائی پیپلز آفیسرز ایسوسی ایشن کے صدر رہے ہیں۔ یہ خاندان بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس کی وجہ سے میرپور خاص ایم کیو ایم کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ ٹنڈوالہ یار میں راحیلہ مگسی جی ڈی اے کے امیدوار کی حیثیت سے ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر الیکشن لڑیں گی جہاں کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔ ادیبہ گل مگسی اور عرفان گل مگسی نے بھی پی پی پی چھوڑ کر جی ڈی اے کی سپورٹ کا اعلان کیا ہے۔ جی ڈی اے سے الائنس کی بنیاد پر راحیلہ مگسی کو ایم کیو ایم کی حمایت مل جائے گی کیونکہ وہ ضلع ناظم کے دور میں بھی ایم کیو ایم سے رفاقتیں رکھتی ہیں۔
مہاجر سیاست کے حوالے سے مہاجر اتحاد تحریک، آل برادری قومی موومنٹ، گرینڈ الائنس اور مہاجر قومی موومنٹ کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی متوقع ہے، جبکہ دبئی سیٹ اپ عشرت العباد اور دیگر کو انیس ایڈووکیٹ اور رضا ہارون کی پی پی پی میں شمولیت سے دھچکا لگا ہے، دادو میں لیاقت جتوئی نے جی ڈی اے میں شمولیت کر کے میہڑ اور کے این شاہ سے پی پی پی کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن میں دھواں دار مقابلے کا امکان ہے۔ ایم کیو ایم نے اگر (ن) لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ کی تو وہ مشکلات کا شکار ہوجائے گی، جبکہ مہاجر قومی موومنٹ آفاق احمد نے بھی تحریک لبیک اور سنی تحریک کے ساتھ مل کر ایڈجسٹمنٹ پر غور شروع کردیا ہے جس سے ایم کیو ایم کی سیٹس پر فرق پڑ سکتا ہے۔ پی پی پی نے پرکشش دس نکاتی منشور کا اعلان کیا ہے، جبکہ استحکام پاکستان پارٹی کے کچھ اعلانات بھی اس سے مطابقت رکھتے ہیں۔ پی پی پی نے رضا ہارون اور انیس ایڈووکیٹ کو شامل کرا کے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ (ن) لیگ نے بھی رضا ہارون کو پیشکش کی تھی۔ رضا ہارون ایم کیو ایم کی اہم ترین شخصیت تھے، جبکہ پی ایس پی میں جنرل سیکریٹری بن گئے تھے۔ اس مرتبہ پی پی پی نے شہری علاقوں کو فوکس کر رکھا ہے۔ ایم کیو ایم کے مولانا تنویر الحق تھانوی سینیٹر، کرنل طاہر مشہدی سینیٹر، خواجہ سہیل منصور سابق رکن قومی اسمبلی، سابق اراکین اسمبلی وقار شاہ، ہیر سوہو، سمیتا افضل سید، وسیم قریشی، مزمل قریشی، فیصل وحید، سکھر سے سلیم بندھانی، میرپور خاص سے سابق رکن قومی اسمبلی انیس ایڈووکیٹ، چیئرمین فاروق جمیل درانی، اہم عہدوں پر فائز سابق پریس سیکریٹری مہاجر قومی موومنٹ رضوان احمد، سینئر رہنما پی پی پی شہنیلہ خانزادہ انہیں پارٹی میں لائیں۔ سوشل میڈیا اور CICانچارج سیدہ تحسین عابدی، معروف بزنس میں تنظیم عزاداری پاکستان کے صدر ایس ایم نقی، زمانہ طالب علمی سے پی پی پی میں موجود شہنیلہ خانزادہ نے کراچی میں متحرک کردار ادا کیا۔ آصف علی زرداری نے میمن برادری کو تقسیم کر دیا ہے۔ آباد اور میمن برادری ایم کیو ایم کی سپورٹر تھی اب وہ پی پی پی کی سپورٹر ہے۔
ایم کیو ایم نے سیاسی حکمت عملی تبدیل
کرتے ہوئے شہباز شریف اور بشیر میمن کی کاوشوں میں سرد مہری کے بعد بدلتی صورتحال دیکھ
کر جے یو آئی او (ن) لیگ، جی ڈی اے کی طرف سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی راہ نکال لی ہے، جبکہ پنجاب
میں استحکام پارٹی، (ن) لیگ، (ق) لیگ، کا مشترکہ اتحاد بیک ڈور سے ہو رہا ہے، جبکہ
برف پگھلی ہے اور سیاست کے بے تاج بادشاہ شہنشاہ مفاہمت اور سیاست آصف علی زرداری نے
پنجاب میں مورچے سنبھال لیے ہیں۔ بلاول بھٹو کی گھن گھرج کے باوجود صدر آصف علی زرداری
کا رویہ مصالحانہ ہے، وہ سیاسی بصیرت رکھتے ہیں۔ ایاز صادق اور خورشید شاہ کی ملاقات
اسی کا شاخسانہ ہے۔ سب جانتے ہیں کوئی بھی اکیلے حکومت نہیں بنا سکتا۔ اس لیے ایک دوسرے
کی وکٹیں گرانے کے باوجود الیکشن کے بعد کے حالات کے لیے بھی سافٹ کارنر اختیار کیا
جا رہا ہے۔ تحریک انصاف پر بلے کے نشان کا خطرہ موجود ہے تو سپریم کورٹ سے نااہلی کیس
میں نواز شریف اور جہانگیر ترین اور دیگر سیاست دانوں پر مدت کی تلوار لٹک رہی ہے۔
الیکشن جوں جوں قریب آرہا ہے سیاسی ٹمپریچر بھی بڑھ رہا ہے، بدین میں فہمیدہ مرزا کے
کاغذات اور ذوالفقار مرزا کے کاغذات مسترد ہونے کے بعد اسٹیٹ بینک کا سرٹیفکیٹ کیا
کرتا ہے، یہ بھی واضح ہو جائے گا۔ بدین میں مورچہ لگانے میں پیر پگارا، (ن) لیگ اور
جی ڈی اے کی جماعتیں تیار ہیں جہاں کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔
کوئی تبصرے نہیں