جلتا کوئلہ
میں بچپن ہی میں یتیم ہو گیا تھا۔ والدہ لوگوں کے کپڑے سلائی کرتیں اور چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالتی تھیں۔ جب ذرا بڑا ہوا تو سبزی مندی میں سبزیوں کی بوریاں اٹھانے اور رکھنے کی مزدوری کرنے لگا۔ سردیوں کے دن تھے، بارش ہو چکی تھی، صبح اُٹھا تو دیکھا امی بخار سے تپ رہی ہیں، گھر میں دوا کے پیسے نہیں تھے۔ فوراً منڈی پہنچا اور مالک سے کچھ پیسے مانگے، مگر انھوں نے کہا کہ میں بہانہ بنا رہا ہوں، اس دن سیٹھ کو جب ایک سودے کے پیسے ملے تو مجھ سے رہا نہ گیا۔ سوچا کہ کتنی ناانصافی ہے، میں ایک ایک روپے کے لیے ترس رہا ہوں، اور سیٹھ مٹھیاں بھر بھر کر روپے وصول کر رہا ہے۔ غصے میں عقل جاتی رہی، میں نے آنکھ بچا کر پیسے چرا لیے۔لیکن میری قسمت کہ میں پکڑا گیا، سیٹھ نے بھرے بازار میں مجھے بے عزت کیا۔ وہاں سے نکل کر میں سیدھا ریل کی پٹری کے پاس پہنچ گیا، میں ریل کی پٹری کے پاس بیٹھ کر رونے لگا۔ ریل سے کٹ مرنے کا سوچنے لگا۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب کوئلے والی ریل گاڑیاں چلا کرتی تھیں اور جہاں جہاں سے گزرتیں وہاں اپنی چمنی سے چھوٹے چھوٹے سرخ جلتے کوئلے اگلتی جاتیں۔ جس وقت میں وہاں بیٹھا تھا اسی وقت ریل گاڑی اُدھر سے گزری اور یوں ایک جلتا کوئلہ میرے برابر آ گرا۔ مجھے احساس ہوا کہ آج میں مر گیا تو اس کوئلے کی طرح راکھ بن جاؤں گا اور دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ صرف میری ماں اور بہن بھائی برباد ہو جائیں گے۔
ریل گاڑی کب کی جا چکی تھی،
میرے سامنے جا بجا سرخ دہکتے کوئلے بکھرے پڑے تھے، ذرا سی ہوا سے یہ لکڑی کے ڈھیر کو
آگ لگانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ میرے دماغ میں خیال کوندا۔ اتفاق سے قریبی کچرے کے ڈھیر
سے ایک ٹین ڈبہ مل گیا، اس میں بڑے بڑے جلتے کوئلے جمع کرکے بھاگتا ہوا قریبی تنور
پہنچ گیا، وہ روٹیوں کے لیے تنور جلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ سرد اور بھیگے موسم میں
تنور جلانا بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے، میں نے جلتے ہوئے کوئلے چند روپوں میں فروخت
کر دیے۔ وہ بھی خوش ہو گیا اور میری ماں کی دوا کے لیے پیسوں کا انتظام بھی ہو گیا۔
اب میں صبح اور شام کوئلے جمع کرتا اور قریبی تنور والوں کو بیچ کر چند روپے کمانے
لگا۔ میرے ہاتھ کی پوریں جل کر بے حس ہو گئی تھیں، میں اپنے ہاتھوں کی پروا نہیں کر
سکتا تھا، کیوں کہ میرے پاس کچھ ہی منٹ ہوتے تھے۔ اگر میں دیر کرتا تو کوئلے راکھ بن
جاتے۔
میں نے کچھ روپے جوڑ کر منڈی
سے پیاز کی بوری خریدی اور اپنے محلے کے پاس ہی زمین پر دری بچھا کر پیاز بیچنا شروع
کردی۔ آہستہ آہستہ محنت کرتے، دھکے کھاتے آخر ایک دن میں خود ایک سبزی کی دکان کا مالک
بن گیا۔ میں پیسے جمع کرتا رہا، پھر کپاس سے بنولا نکالنے والی ایک چھوٹی فیکٹری خریدی۔
اللہ نے اس میں بہت برکت ڈالی اور میں نے اپنا گھر بھی بنا لیا۔
میں نے ایک بات کا خیال رکھا
کہ اپنے ملازمین کی قدر کرتا اور مشکل وقت میں جہاں تک ہو سکتا تھا ان کے کام آتا۔
اللہ کا احسان ہے کہ آج میں خوش حال زندگی گزار رہا ہوں۔
کوئی تبصرے نہیں