زینہ اُترتا بھی ہے

کیا رکھا ہے اب مت سوچو

جو بیت گیا سو بیت گیا

ان باتوں کو کیوں یاد رکھیں

جو آج محض کچھ قصے ہیں

بوسیدہ سی اِک گٹھڑی میں

اِک گزرے وقت کے ٹکڑے ہیں

ہاں وقت کی دھارا بہتی ہے

بہتی ہے بہتی جاتی ہے

اب کس کس بات کو یاد کریں

اس گھر کو اس کے کمروں کو

ان سرخی مائل اینٹوں کو

اِک لان سے لپٹی بیلوں کو

جہاں بچے مل کر ہنستے تھے

اِک کھیل تھا لمبی ٹیلو کا

جہاں چھپن چھپائی ہوتی تھی

اور کانچ کے ست رنگی کنچے

اور اِک دن گھوڑے تانگے میں

گھر والوں کے ہمراہ کبھی

کوئی فلم بھی دیکھا کرتے تھے

کیا رکھا ہے اب مت سوچو

سوچو گے تو یاد آئے گا

راتوں میں گھر کی چھت پر جب

جنّات کے قصے ہوتے تھے

اور ان کو سچ کرنے کے لیے

پھر قسمیں کھائی جاتی تھیں

پھر آجاتے تھے فیشن پر

تہذیب پہ اور تمدن پر

سب کچھ میں تھا میں ہوں تم پر

پھر باتوں میں شامل ہوتا

کہ کس کو کیا کیا بننا ہے

اور غیبت کا تو کیا کہنا

موجود نہ ہو جو محفل میں

ہر عیب اسی میں ہوتا تھا

اتنے میں دور سے تانگے کی

آواز سنائی دیتی تھی

گھوڑے کی ٹاپوں کی ٹک ٹک

بجتی تھی کسی شہنائی سی

وہ چھت وہ رات وہ تیز ہوا

انھیں مت سوچو

کچھ دیر میں نیند آ جاتی تھی

سب اپنے سپنے اوڑھ کے پھر

بے فکری سے سو جاتے تھے

لیکن اس چھت کے زینے سے

چپ چاپ اترتا تھا کوئی

وہ سمے تھا اب معلوم ہوا

پھر جاڑے گرمی اور خزاں

اور ماہ و سال کا سیلِ رواں

اس زینے کی ہر سیڑھی سے

جب اُترے تب احساس ہوا

معلوم ہوا اب اس گھر میں

دیواریں ہی دیواریں ہیں

وہ بچے جانے کہاں گئے

جو رات کو چھت پر سوئے تھے

آنگن کی بیلیں سوکھ گئیں

ہر شے پر تھی پھر خاک جمی

میں اکثر سوچ میں رہتا ہوں

وہ بیچ کا عرصہ کہاں گیا

یہ بس اک رات کا قصہ ہے

جہاں بچے تھے وہاں بوڑھے ہیں

وہ شور مچاتے رہتے تھے

یہ ڈرے اور سہمے رہتے ہیں

کیا رکھا ہے اب مت سوچو

ان اُلجھی سُلجھی یادوں میں

کوئی تبصرے نہیں