بانگِ محبت (افسانہ)
بندو کی اچانک طبیعت ایسی خراب ہوئی کہ اسے ڈاکٹر کے پاس جانا ہی پڑ گیا۔ وہ ایک بھلا مانس تھا۔ بالغ ہوتے ہوئے بھی ذہنی نابالغ تھا۔ محلے میں بھی آس پڑوس کئی ڈاکٹر تھے۔ اس نے ہجے کرکے ایک دروازے پر لگا بورڈ پڑھ کر دستک دی۔ سب سے پہلے پڑوس میں ڈاکٹر خالد کمال خالد نکلے۔ اس نے چادر سے ہاتھ نکال کر نبض دیکھنے کو بڑھا دیا۔
ڈاکٹر صاحب! دیکھنا مجھے کیا ہوا ہے؟ دیکھ کر دوا بتا دیں۔
ارے بھائی! میں وہ ڈاکٹر نہیں ہوں۔ میں لکھنے پڑھنے والا ڈاکٹر ہوں۔
تو کیا دوسرے ڈاکٹر لکھنے پڑھنے والے نہیں ہوتے؟
او بھائی! تم جا کر اس ڈاکٹر کو تلاش کرو۔ مجھے معاف کرو۔
جانے یہ خود کو ڈاکٹر کیوں کہتے ہیں۔ وہ سوچتے سوچتے ایک اور دروازے پر جا پہنچا۔ ڈاکٹر کے نام کے نیچے انگریزی میں لکھاوہ نہیں سمجھ پایا۔ دستک دینے پر ڈاکٹر جے پال باہر آئے۔ ”بولو! کیا بات ہے؟
ڈاکٹر
صاحب! دیکھیں مجھے کیا بیماری ہے؟ اس نے پھر چادر سے ہاتھ نکال کر بڑھا دیا۔
میرے
بھائی! میں ویسا ڈاکٹر نہیں ہوں۔ میں انتھیسیا کا ڈاکٹر ہوں۔ اگر تمہارے آپریشن کا
مسئلہ ہو تو بتانا، میں سُن کرنے یا بے ہوش کرنے میں ماہر ہوں۔ شاید تم نے بورڈ پر
نہیں پڑھا۔ روڈ پر ڈاکٹر فرحت کے کلینک پر جاؤ۔ بے ہوشی کا سن کر وہ تیز تیز چلتا
روڈ کی طرف روانہ ہو گیا۔
ڈاکٹر فرحت کا کلینک کھلا ہوا تھا۔ نمبر آنے پر ڈاکٹر صاحب نے بلایا :کیا مسئلہ ہے؟
مجھے نہیں معلوم، کچھ متلی ہے، کچھ پیٹ میں گڑگڑاہٹ ہے۔ سمجھ نہیں آتا، دل بہت گھبراتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے تھرما میٹر
لگا کر ٹمپریچر لیا، بلڈ پریشر چیک کیا، اِدھر اُدھر سے پیٹ دبا کر دیکھا اور ٹیبلٹ
لکھ دیں۔
دیکھو، صبح اذان کے ساتھ ہی پہلی گولی کھانی ہے، دوسری دوپہر اور تیسری شام کو کھانے کے بعد۔
ڈاکٹر صاحب! میرے گھر کے پاس دور تک مسجد نہیں، یہ اذان کا مسئلہ۔
ارے بھائی! صبح مرغا بھی اذان دیتا ہے۔ جب ہی گولی کھا لینا، جاؤدماغ نہ کھاؤ!
اچھا جی، یہ صحیح ہے۔ بالکل بالکل دیتا ہے اذان دیتا ہے۔
وہ رات میں بار بار اٹھ کر دیکھتا سنتا رہا۔ شاید اب اذان کی آواز آئے۔ کیوں کہ مذہب کے معاملے میں ذرا کچا بندہ تھا۔ آخر منہ اندھیرے ایک مرغے کی بانگ سنائی دی۔ پانی کا گلاس تیار تھا، حلق میں گولی ڈالی اور کئی گھونٹ پانی چڑھا گیا۔ ابھی دس منٹ ہوئے تھے کہ دوسری جانب سے ایک اور مرغے کی بانگ سنائی دی، اس نے پھر گولی سنبھالی مگر خیال آیا، ڈاکٹر صاحب نے ایک ہی گولی کھانے کو کہا تھا۔ ”ارے یہ کیا، پہلی بانگ صحیح تھی یا یہ دوسری؟“ سوچ بچار کرتے کرتے وہ کھڑا ہو گیا۔چل کر معلوم کرنا پڑے گا۔
وہ پہلے والے کے گھر پہنچ گیا، اندر سے آنکھیں ملتے ہوئے جعفری صاحب برآمد ہوئے۔ استغفار کرنے پر انھوں نے بتایا۔ یہ اہل ”شین“ کا مرغا ہے۔ اپنے صحیح وقت پر اذان دیتا ہے۔ آپ کو کوئی تکلیف؟
تکلیف تو نہیں، مگر مسئلہ ضرور درپیش تھا۔ پھر بھی وہ خاموشی سے مڑ گیا۔ جاتے جاتے دوسرے گھر کا خیال آیا۔ اس نے جا کر ان کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ صدیقی صاحب نے اس دخل در نامعقولات بے وقت سبب پوچھا۔ پھر انھوں نے وضاحت کی یہ اہل ”شین“ کا مرغا ہے ہمیشہ اپنے وقت پر اذان دیتا ہے۔ وہ سر کھجاتا ہوا واپس آگیا۔ ٹھیک ہے اس کا فیصلہ اب ڈاکٹر صاحب ہی کریں گے۔ ڈاکٹر فرحت نے کہا :تمہیں کوئی ”میم“ والا مرغا نہیں ملا؟
ڈاکٹر صاحب! وہ دونوں ہی اپنے اپنے مرغے کی اذان پر نماز پڑھتے ہیں۔ دونوں ہی کلمہ گو تھے۔
میرے
دماغ کی لسی مت بناؤ۔ جاؤ مسلم مرغا تلاش کرو، یا خود خرید کر پال لو۔ وہ مایوس واپس لوٹ گیا۔ واقعی ایسا مرغا تلاش
کرنا پڑے گا۔ میرا بھی کچھ فرض ہے۔
صبح وہ بس اسٹاپ پر کھڑا
تھا۔ دور ایک ٹھیلے پر نظر پڑی۔ قریب جا کر دیکھا تو ایک ننگ دھڑنگ مرغا نہ سر نہ پاؤں،
نہ بال و پَر۔ بے چارا کانٹے میں لٹکا ہوا تھا۔ اور نیچے گہرے تھال میں اس کے کچھ اعضا
و جوارے بھی اُبلتے ہوئے شوربا نما پانی میں پڑے ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں ایک بگونے سے
وہ مزید ایسے ہی ننگ دھڑنگ مرغے تھال میں ڈبو ڈبو کر ٹانگ رہا تھا۔ شاید انھیں وہ غسل
دے رہا تھا۔ یہ تو زندہ نہیں اس لیے میت کو غسل دینا واجب ہے۔ ہاں سنا ہے اسے ”غسلِ
میت“ کہتے ہیں، اس نے پوچھا۔
بھائی جان! کیا یہ مسلم مرغے ہیں؟ کیا یہ اذان دیتے تھے، مجھے ایک زندہ والا چاہیے تھا۔
ارے میرے بھائی! یہ ”مرغ مسلم“ ہے۔ جب زندہ رہا ہوگا تو ضرور اذان دیتا ہوگا۔ اب یہ لوگوں کے پیٹ میں ہی جا کر اذان دے گا۔ آپ بھی ٹرائی کریں۔
نہیں، مجھے زندہ مرغے کی تلاش ہے۔ جو صحیح وقت پر اذان دیتا ہو۔ یہ تو مردہ ہے۔
ہاں بھائی! یہ مردہ ہیں، ان کو غسل دے کر دفنانا ہے، بھوکوں کے پیٹ میں۔
ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب کو بتاتا ہوں کہ ابھی ایسا زندہ مرغا نہیں مل رہا۔
اس نے جا کر ڈاکٹر صاحب کو اطلاع دی کہ ”کہیں ابھی مسلم مرغا نہیں ملا۔ ایک ٹھیلے پر مرغوں کے جنازے لٹک رہے تھے۔“ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ”کل میرے پاس آ کر ایک لیٹر لے جانا، ہاں کبھی حیدر آباد جانا ہوا؟ اگر نہیں، تو پھر کل ٹرین میں ٹکٹ لے کر روانہ ہو جانا۔ حیدر آباد سے کچھ پہلے ایک اسٹیشن ہے، انگریزی کے علاوہ اردو میں اس کا نام لکھا ہے، ہجے کر لینا، گِدو ہاں! گِدو بس وہیں اتر جانا۔ قریب ہی ایک اسپتال ہے، جا کر یہ لیٹر دینا۔ وہ تمہیں آرم سے وہاں تب تک رکھیں گے جب تک تم بالکل ٹھیک نہ ہو جاؤ۔ وہاں تمہارے جیسے بہت بھلے مانس بھی ملیں گے، تمہارا دل خوب لگے گا۔ وہاں لوگ درختوں پر چڑھ کر اذان بھی دیتے ہیں۔ ٹھیک اذان کے وقت ایک گولی کھا لینا ، انشا اللہ جلد یا بہ دیر صحت پاؤ گے اور جب غسل میت نہیں غسل صحت کرکے واپس آؤتو مٹھائی کی بجائے حیدرآباد کی مشہور بیکری کا کیک لے کر میرے پاس آنا۔ امید ہے جب تک تم خود ٹھیک وقت پر محبت سے بانگ دو گے۔
ڈاکٹر صاحب! آپ کا بہت شکریہ، میں کل حاضر ہوتا ہوں۔
کوئی تبصرے نہیں