ہیرے کے سنگ تراش
)دوسری برسی پر خصوصی مضمون)
تحریر: اویس ادیب انصاری
ہمارے شہرِ قائد نے گزشتہ 76 سالوں اور اس سے پہلے بھی کچھ ایسی شخصیات کو جنم دیا، جنھوں نے معاشرے میں اپنے علم، تجربے، عمل اور کردار سے ایسے چراغ روشن کیے جو اپنی مثال آپ ہیں۔ اگر ان شخصیات کا تذکرہ کیا جائے تو پوری ایک کتاب تحریر کی جا سکتی ہے۔ اسی میں ایک قد آور شخصیت جناب یاور مہدی کی تھی، وہ ایک ایسا جلتا ہوا روشن چراغ تھے جس کی لَو سے سیکڑوں چراغ روشن ہوئے، یاور مہدی کو کیسے کسی کی صلاحیتوں کا علم ہو جاتا تھا یہ ایک راز ہے۔ اسی لیے ہم ان کو ہیرے کے سنگ تراش کا نام دے سکتے ہیں، انھوں نے اپنی عملی زندگی کے سفر کا آغاز پاکستان آنے کے بعد معمولی نوکریوں سے کیا مگر جب وہ ریڈیو پاکستان کی ملازمت میں آئے تو وہ دور ریڈیو پاکستان کا سنہری دور تھا۔
انھوں نے پروڈیوسر، کنٹرولر،
اسٹیشن ڈائریکٹر کراچی کی حیثیت سے ریڈیو کے پروگراموں کو بام عروج تک پہنچا دیا، جس
میں صبح دم دروازہ کھلا، شب کو ہے گنجینہ گوہر کھلا، کوئز چیلنج اور دیگر پروگرام شامل
ہیں، مگر ان تمام پروگراموں پر اگر کوئی پروگرام بازی لے گیا تو وہ ان کا قائم کردہ،
بزم طلبا کا پروگرام ہے۔ یہ ان کا قابل قدر، قابل تحسین وہ کام تھا جس میں کالجز، یونیورسٹیز
کے طلبا و طالبات شامل تھے۔
یاور مہدی نے کالجز اور یونیورسٹیز
سے ہیرے تلاش کیے اور بزم طلبا میں تراش خراش کر کے ان شخصیات کو شہرت کے بام عروج
تک پہنچا دیا۔ ان میں سے بہت سے لوگ پاکستان اور پاکستان سے باہر بڑی تعداد میں اہم
عہدوں، بڑے علمی، ادبی، ثقافتی، سماجی مراتب پر فائز ہیں، اگر ان کے نام لکھے جائیں
تو پورا ایک صفحہ مزید چاہیے۔ آج بھی بزم طلبا کا گروپ مختلف ناموں سے واٹس ایپ اور
فیس بک پر قائم ہیں جس کی وجہ سے لوگ آج 45 سال گزرنے کے بعد بھی اس دور کے ان پروگراموں
کو یاد رکھتے ہیں۔ یہاں سے وہ اعزازی طور پر آرٹس کونسل آف کراچی سے وابستہ ہوئے اور
اس آرٹس کونسل کو 1986 میں سنبھالا اور اس کی حالت کو درست کرتے ہوئے شہر قائد کے ثقافتی،
سماجی اور ادبی دھارے میں ایک مقام کے ساتھ شامل کر دیا۔
انھوں نے آرٹس کونسل کراچی
کے مالی وسائل کو حل کرنے کی کوشش کی اور ایسی شخصیات کا انتخاب کیا جو اپنی شہرت اور
مالی حیثیت سے ایک مقام رکھتے تھے، تاکہ آرٹس کونسل کے مالی مسائل کو بہتر بنایا جا
سکے۔ آرٹس کونسل جو کہ دھول مٹی اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں سے اٹا پڑا تھا، اسے صفائی
ستھرائی کے بعد ایک باوقار شکل دے دی۔ وہ ایسے خواتین و حضرات کو سامنے لائے جنھوں
نے آرٹس کونسل کے وقار اور اس کی اقدار کو مزید آگے بڑھایا اور آج آرٹس کونسل آف کراچی
نے ملکی اور عالمی سطح پر جو مقام حاصل کیا ہے اس میں بہت بڑا حصہ حالیہ لوگوں کا تو
ہے ہی، مگر ماضی میں اس کو بنانے، سنوارنے اور اس کو پروان چڑھانے میں اور مہدی اور
ان کے رفقا کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ہم اپنی تحریر کا اختتام اس بات پر کرتے ہیں کہ
اب ہمیں دور دور تک ایسی شخصیات دکھائی نہیں دیتیں۔
کوئی تبصرے نہیں