ہم فطرت کے قوانین سے مدد حاصل کر سکتے ہیں, پروفیسر ڈاکٹر جاوید سید

SMIU, Sindh Madressatul Islam University, Prof. Javed Syed


کراچی (نمایندہ ٹیلنٹ) سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے زیراہتمام فطرت سے ہم آہنگ کاروباری رجحانات(Biomemitic innovation and entrepreneurship)کے موضوع پر ایک سیشن منعقد ہوا جس میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمس) کے پروفیسر ڈاکٹر جاوید سید نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ سیشن سے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید سید نے کہا کہ ہم اپنے ماحول اور اطراف میں موجود نظام فطرت سے سیکھ کر اپنے کاروبار میں بہتری لا سکتے ہیں اور توانائی پر ہونے والے بڑے اخراجات کم کرسکتے ہیں۔ اس طرح کم اخراجات سے معیاری اور کم قیمت خدمات اور اشیا صارفین کے لیے مہیا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یورپی ممالک کے ماہرین عمارات نے فطرت سے ہم آہنگ عمارات بنانا شروع کردی ہیں، لیکن ہمارے ملک میں اب تک اس طرح کی ماحول دوست عمارتوں کی تعمیر کا رجحان زیادہ توجہ حاصل نہیں کر سکا ہے۔

ڈاکٹر جاوید سید نے جاپان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جاپان میں چلنے والی تیز رفتار بلٹ ٹرین نے اپنی رفتار مزید بہتر کرنے اور تیز رفتار کے دوران ہونے والے شور کو کم کرنے کے لیے کنگ فشر (رام چڑیا) نامی پرندے کی فضا سے پانی میں خاموشی سے شکار کے لیے ڈبکی لگانے کے مشق اور طریقہ کار سے رہنمائی حاصل کرکے بلٹ ٹرین کی ڈیزائن میں تبدیلی لاکر اس کی رفتار میں 20 فیصد اضافہ کیا ہے اور ٹرین کی تیز رفتاری کے دوران پیدا ہونے والے شور میں بھی کمی لائی ہے۔

ڈاکٹر جاوید سید نے بایومیمٹک اور فطرت سے ہم آہنگ تجاویز پر ہونے والی تحقیق کی تفصیلی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں جنگلات میں دیمک کے مٹی کے ٹیلوں سے یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ مٹی کے ان بڑے ٹیلوں میں جہاں دیمک کا کیڑا لاکھوں کی تعداد میں موجود رہتا ہے وہاں وہ تازہ ہوا کے گزر کا انتظام وضع کرتا ہے جو مٹی کے ان ٹیلوں کے اندر زندگی کو رواں دواں رکھتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید سید نے کہا کہ ریسرچ کے مطابق ان ٹیلوں کے ہوا کے گذر اور اخراج کا ایک بہترین طریقہ کار موجود ہے، جسے جان کر اب کئی ممالک میں ماہرین تعمیرات نے فطرت کے اس قدرتی ماڈل سے ہم آہنگ عمارتیں بنانا شروع کردیں ہیں۔ اس طرح کی ماحول اور فطرت دوست عمارتوں میں ہوا کا گذر اس طرح سے رکھا گیا ہے کہ عمارتوں کا درجہ حرارت کم رہتا ہے، شدید گرمی سے ایسی عمارتیں محفوظ رہتی ہیں اور ایئر کنڈیشنگ پر ہونے والے بھاری اخراجات بھی نہیں ہوتے۔ ساتھ ساتھ ایئر کنڈیشنگ سے ہونے والی ماحولیاتی آلودگی کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر جاوید سید نے مزید کہا کہ دنیا کے کئی ممالک اس طرح کے فطرت دوست نظریات سے اپنے معاملات میں بہتری لا رہے ہیں تاکہ نہ صرف ہم اپنی موجودہ وسائل سے بہتر زندگیاں گزار سکیں بلکہ آنے والی نسلوں کی زندگی کے لیے بھی سازگار ماحول اور وسائل کی گنجائش رکھ سکیں۔ اس لیے انہوں نے تجویز دی کہ ہمیں بھی اس سے سیکھنا ہے اور اس پر عمل کرنا ہے، تاکہ اپنے ملک تو ترقی بھی دلا سکیں اور عام لوگوں کی زندگی بھی بہتر بنا سکیں۔

اس موقع پر اقرا یونیورسٹی کراچی کے ذکی راشدی نے کہا کہ ہمیں ماحول دوست اقدامات کی طرف واپس جانے کی ضرورت ہے، اس کے لیے ہمیں فطرت سے ہم آہنگ ماحول کے لیے درکار لوازمات اور ضروریات ماحول کو واپس لوٹا دینی چاہیے تاکہ ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک سازگار ماحول اور صورتحال معرض وجود میں آ سکے۔

ڈین فیکلٹی آف مینجمنٹ، بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ کامرس پروفیسر ڈاکٹر جمشید عادل ہالیپوٹو نے بایومیمٹک کے موضوع پر منعقدہ اس سیشن کے اختتام پر شرکا کا شکریہ ادا کیا اور اہم خیالات پیش کرنے پر انہیں مبارکباد دی۔ اسسٹنٹ پروفیسر قراة العین نذیر نے شکریہ کلمات ادا کیے جبکہ اس نشست کی میزبانی کے فرائض اسسٹنٹ پروفیسر آصف حسین سموں نے ادا کیے۔

کوئی تبصرے نہیں