غزل
حسنین اکبر
جگنو پر سے باندھ رہے تھے جس دم زرد اجالے کو |
ہم مِٹّی سے ڈھانپ رہے تھے اپنے ہاتھ کے چھالے کو |
باہر غم کی دستک تھی اندر آواز اداسی کی |
دروازے کے دونوں جانب کوس رہے تھے تالے کو |
اِک ترتیب سے پورے گھر نے اِک دوجے سے جنگ لڑی |
مہر نے چاند کو عاق کیا اور چاند نے اپنے ہالے کو |
دل وہ منزل ہے جس پر آنکھوں کا سہارا بِدعَت ہے |
بینائی کا مجرم سمجھا جائے دیکھنے والے کو |
مدحت کے ماحول میں رکھی اک تدبیر حفاظت کی |
غارِ ثور سے نسبت دے دی گھر کے ہر اِک جالے کو |
پتھر جس کے دشمن ٹہرے اس کو شیشہ مان لیا |
اتنا کون پرکھتا, اکبر ! سب کے دیکھے بھالے کو |
واہ، بہت عمدہ ۔
جواب دیںحذف کریںنئے انداز میں بہت سلیقے سے بات کی گئی ہے۔
امید ہے حسنین اکبر کی دیگر نگارشات بھی پڑھنے کو ملیں گی۔