عنوان: سلویا پلاتھ اور خودکشی کا اوون
خودکشی سے متعلق اپنی 1971 کتاب میں سلویا پلاتھ کے عزیز دوست اور نقاد ال الواریز نے دعویٰ کیا کہ:"پلاتھ کی خودکشی مدد کے لیے ایک لا جواب فریاد تھی!"
اجمالی خاکہ:
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی شہریت رکھنے والی لندن میں مقیم سلویا پاتھ 27 اکتوبر 1932 میں بوسٹن میں پیدا ہوئیں اور محض 31 سال کی عمر میں 11 فروری 1963 میں لندن میں اپنے گھر میں مردہ حالت میں پائی گئیں ان کی وفات کی وجہ کاربن مونو آکسائیڈ یا دوسرے الفاظ میں ایسی خودکشی تھی جسے شاید ہی اب تک کسی اور نے اس طرح سے اپنایا ہو۔ سلویا نے اپنے لکھنے کی ابتدا بچوں کی ادیبہ کے طور پر کی۔ ان کی بہترین کتب میں ”دی بیل جار“ شامل ہیں۔ سلویا کو پولٹرز انعام برائے شاعری 1982 سے نوازا گیا جو بہت ہی کم تخلیق کار کی موت کے بعد دیا جاتا ہے۔ سلویا پاتھ یہ اعزاز پانے والی چوتھی فرد ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں گلاسکاک انعام 1955 میں دیا گیا۔ سلویا نے اپنے پیچھے ایک لڑکا بنام نیکولس ہیوز اور ایک لڑکی فریڈا ہیوز چھوڑی۔ پیشے کے اعتبار سے سلویا شاعرہ، مصنفہ، ناول نگار، آپ بیتی نگار، بچوں کی ادیبہ، روزنامچہ نگار اور مضمون نگار تھیں!
تفصیلی خاکہ:
31سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوجانے والی سلویا پلاتھ کی موت آج بھی ایک معمّہ ہے۔ سلویا پلاتھ 1932 میں امریکہ کے شہر بوسٹن میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ کا خاندانی تعلق آسٹریا سے تھا اور والد کا آبائی رشتہ جرمنی سے جڑا ہوا تھا وہ دونوں امریکہ میں پہلی نسل کے مہاجر تھے سلویا پلاتھ کے والد بوسٹن یونیورسٹی میں حیاتیات کے پروفیسر تھے یا واضح طور پر کہا جائے تو سلویا پلاتھ کے والد بوسٹن یونیورسٹی میں بیالوجی کا پروفیسر تھے جنہوں نے شہد کی مکھیوں میں اسپیشلائزیشن کی ہوئی تھی شاید یہی وجہ ہے کہ سلویا کی شاعری میں بھیBee Poemsکو اہم مقام حاصل ہے۔ سلویا کی آٹھ سال کی عمر میں ان کے والد کی وفات نے جو اثر واضح کیا اسے انہوں نے اپنی ڈائری لکھنے کے مشغلے، شاعری اور پینٹنگز تینوں میں بتدریج و مسلسل اتارا۔ تین بار اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی ناکام کوشش، ذہنی دباؤ کا شکار اور ماہرِ نفسیات کے زیرِ علاج رہنے والی سلویا پاتھ ایک روز خودکشی کی خبر کے ساتھ نیوز ہیڈ لائنز میں نمایاں ہوگئیں۔ 27 اکتوبر 1932 کو پیدا ہونے والی سلویا پلاتھ کے والد ایک کالج میں پروفیسر اور ماہرِ حشرات تھے۔ 18 سال کی عمر میں مقامی اخبار میں ان کی پہلی نظم شایع ہوئی۔ ان کی وجہ شہرت کا حامل ناول دی بیل جار کے بارے میں کہا جاتا ہے اس ناول کے چند ابواب دراصل سلویا پلاتھ کی ذاتی زندگی کا عکس ہیں۔ ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ 1960 میں شایع ہوا سلویا کی الم ناک موت کے برسوں بعد اس کی دیگر نظموں کو کتابی شکل میں شایع کیا گیا۔ ان کی نظموں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں اردو بھی شامل ہے۔ سلویا پاتھ کو شاعری کی صنف کے فروغ کا سہرا دیا جاتا ہے وہ اپنے دو شائع شدہ مجموعوں دی کولاسس اینڈ دیگر پوئمز (1960) ایریل (1965) کے ساتھ ساتھ دی بیل جار، ایک نیم سوانحی ناول کے لیے مشہور ہوئیں۔ ان کی موت سن 2963 کے بعد 1981 میں دی کولیکٹڈ پوئمز "The Collected Poems" شائع ہوئیں جس میں اس سے پہلے کی غیر مطبوعہ تخلیقات شامل تھیں اس مجموعے کے لیے پلاتھ کو 1982 میں صنفِ شاعری میں پلٹزر پرائز سے نوازا گیا۔
نمایاں تخلیق کاری کی ابتدا:
1950میں جب انہیں اسمتھ کالج میں داخلہ ملا تو انہوں نے کالج کی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا جنہیں ان کے اساتذہ نے بہت سراہا کالج کی تعلیم کے تیسرے سال انہیں ایک خاص انعام ملا اور MEDEMOSIELLE میگزین نے انہیں چند اور خواتین ادیبوں کے ساتھ ایک مہینے کے لیے نیویارک بھیج دیا۔ نیویارک میں ایک مہینے کا تجربہ سلویا پلاتھ کے لیے اتنا اہم اور بھرپور تھا کہ انہوں نے اس تجربے کو اپنے ناول"The Jarbell" کے لیے خام مال کے طور پر استعمال کیا۔ 1955 میں سلویا پلاتھ نے دوستاوسکی کے ناولوں پر مقالہ لکھ کر اسمتھ کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی سلویا کو ان کی ذہانت پر انگلستان کا فل برائٹ سکالر شپ دیا گیا!
ٹیڈ ہیوز سے ملاقات:
سلویا پلاتھ کی مشہور شاعر ٹیڈ ہیوز
سے ملاقات 1956 میں ہوئی وہ دونوں محبت میں مبتلا ہونے کے بعد انہوں نے ایک طویل عرصہ
محبت بھری نظمیں بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا جس کا اختتام ایک دوسرے شادی کے طور پر
اپنا کر ختم ہوا۔ 1957 میں سلویا اور ٹیڈ امریکہ آ گئے اور دونوں شعبہ تدریس سے جڑ
گئے۔
علیحدگی کا پسِ منظر:
سلویا کے ہاں ان کی بیٹی فریدا اپریل 1960 اور بیٹا نکولس جنوری 1962 میں پیدا ہوئے۔ 1961 میں سلویا اور ٹیڈ نے ایک جوڑے آسیا ولول اور ڈیوڈ ولول سے گھر کرائے پر لیا لیکن اس گھر نے ان کی زندگی میں ایک سب کچھ یکسر بدل کر رکھ دیا۔ سلویا کے شوہر ٹیڈ اپنی مالک مکان آسیا کی زلف کے اسیر ہو گئے۔ جنوری 1962 میں جب سلویا کو اپنے شوہر کے ایک شادی شدہ عورت سے رومانوی تعلقات کا پتہ چلا تو وہ اتنی دلبرداشتہ ہوئیں کہ وہ ستمبر 1962 میں وہ جگہ چھوڑ کر دونوں بچوں کے ہمراہ انگلستان چلی گئیں اور طلاق لینے کے بارے میں سوچنے لگیں۔ ٹیڈ سے علیحدگی کے بعد سلویا میں ایک تخلیقی طوفان آیا اور انہوں نے چند ماہ میں چالیس نظمیں لکھ ڈالیں۔ اسی دوران انہوں نے اپنا خود سوانحی ناول دی بیل جار بھی وکٹوریا لیوکس کے فرضی نام سے چھپوایا۔ انگلستان میں بچوں کی خدمت، شوہر سے شکایت اور سردی کی شدت کی وجہ ان پر ڈپریشن کا ایک اور دورہ پڑا ان کے ڈاکٹر نے انہیں اینٹی ڈپریسنٹ ادویہ کھانے اور ہسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا لیکن انہوں نے ہسپتال جانے سے انکار کر دیا آخر ڈاکٹر نے جب سلویا کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے گھر میں ایک نرس رکھ لیں تو وہ راضی ہو گئیں!
اقدامِ خودکشی کی ابتدا:
نیویارک کے قیام کے دوران سلویا پلاتھ
کی شدید خواہش تھی کہ وہ مشہور شاعر ڈلن تھامس سے ملیں۔ وہ ان کے ہوٹل کے گرد دو دن
تک چکر لگاتی رہیں لیکن جب وہ ملے بغیر چلے گئے تو سلویا پلاتھ اتنی دلبرداشتہ ہوئیں
کہ انہوں نے ایک چاقو سے اپنی ٹانگوں پر چرکے لگائے اور اپنے آپ سے پوچھا کہ کیا مجھ
میں اتنی ہمت ہے کہ میں خود کشی کرلوں؟
سلویا پلاتھ نے پہلا باقاعدہ اقدام خودکشی
اگست 1954 میں کیا جب انہوں نے اپنی والدہ کی تمام خواب آور گولیاں کھا لیں اس اقدام
خودکشی کے بعد انہوں نے چھ ماہ ایک نفسیاتی ہسپتال میں گزارے جہاں ان کا بجلی کے جھٹکوں
سے علاج کیا گیا۔
سلویا پلاتھ کی خودکشی:
لندن 11 فروری 1963 کی صبح انہوں نے
اپنے گھر میں سوئے ہوئے دونوں بچوں اور اپنے کمرے بیچ تولیے، کتابوں، کپڑوں اور ٹیپ
سے تمام راستے بند کردیے۔ اپنی موت سے قبل سلویا نے اپنے دونوں بچوں کے لئے انڈے اور
ڈبل روٹی کا ناشتہ داشتہ کی آمد سے قبل جلدی تیار کیا۔ اس زندگی کے طویل سفر کے بعد
سلویا پلاتھ نے اپنا سر گیس کے تندور میں رکھا اور چولہا آن کردیا۔ نگہداشت پر مقررہ
نرس اور بچوں کی داشتہ نے گھر کو اندر سے بند پاکر طبع آزمائی کے بعد ایک کمرے میں
سوئے ہوئے دو بچوں اور دوسرے کمرے میں سلویا کو اوون میں سر دئے مردہ حالت میں پایا۔
سلویا نے اپنے لئے وہ راستہ اختیار کرلیا جس میں وہ بارہا ناکام ہوچکی تھیں۔ سلویا
کی خودکشی کے بعد فیمنسٹ عورتوں کی جانب ٹیڈ یعنی سلویا کے شوہر کو سلویا کی خودکشی
کا ذمہ دار ٹھہرایا اور انہیں قتل کی دھمکیاں دیں۔
ٹیڈ کافی عرصہ سلویا سے رشتے کے بارے
میں خاموش رہے لیکن پھر 1998 میں انہوں نے ایک شاعری کا مجموعہ BIRTHDAY LETTERS کے نام سے چھپوایا۔ اس کتاب کا ٹائٹل
ان کی بیٹی فریدہ نے بنایا تھا۔ جب وہ مجموعہ چھپا تو بہت کم لوگ جانتے تھے کہ ٹیڈ
کینسر کے آخری مراحل میں ہیں اس لیے کتاب کی اشاعت کے چند ماہ بعد وہ اس جہان فانی
سے کوچ کر گئے۔
سلویا کی زندگی کے باقی کردار:
ٹیڈ نے جس شادی شدہ عورت آسیہ/آسیا سے رومانوی تعلقات قائم کیے تھے اس نے بھی چند سال بعد خودکشی کرلی اور انہوں نے بھی وہی طریقہ کار اپنایا جو سلویا نے ایجاد کیا تھا مگر سلویا کے برعکس آسیہ اپنے ساتھ اپنی چار سالہ بیٹی شورا کو بھی لے موت کے ہمراہ لے گئیں۔ سلویا پلاتھ کے شوہر ٹیڈ ہیوز 1998 میں کینسر سے جنگ ہار گئے۔ 2009 میں سلویا پلاتھ کا واحد بیٹا نکولس چالیس برس کی عمر میں الاسکا کی ریاست میں اپنے آپ کو پھانسی دے کر والدہ کے راستے پر گامزن ہو گیا، وہ فشریز کے محکمے میں آفیسر تھا اور اس نے تمام عمر والد اور والدہ کے برعکس عوامی شہرت سے کوسوں دور گم نامی میں گزاری تھی۔ اس کی بہن فریڈا ہیوز کے مطابق میرے بھائی نے بظاہر ایک پروفیشنل زندگی گزاری لیکن وہ اس ذہنی تناؤ سے کبھی جان نہ چھڑا سکا جو اس کو اس کی والدہ کی خود کشی کے باعث بچپن ہی میں ملا تھا یعنی جو قصہ اوون سے شروع ہوا تھا چھت پر لٹکتی ہوئی رسی پر منتج ہوگیا۔ کہتے ہیں کہ ذہنی بیماریاں بھی بعض جسمانی اور طبعی بیماریوں کی طرح موروثی ہوتی ہیں۔ البتہ فریڈا ہیوز ایک فن کارہ بن کر ابھریں اور کافی اطوار سے فیمنسٹ عورتوں کے مقابل آکر اپنے والد کا دفاع کیا۔
انگلش ہارڈر کی سلویا پر گفتگو:
انگلش ہارڈر سلویا پلاتھ کا ڈاکٹر اور
ماہرِ نفسیات تھا طویل عرصہ ان کے مابین دوستی رہی۔ سلویا پلاتھ کی المناک موت کے بعد
انگلش ہارڈر اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”خودکشی سے چند دن پہلے میں نے
ایک اینٹی ڈپریسنٹ، ایک مونوامین آکسیڈیز تجویز کیا میں اسے ہسپتال میں داخل کرانے
کے لیے سخت کوششیں کرتا رہا اور اس سے ملنے روز جاتا رہا اور بالآخر اسے ایک ہوم نرس
کے لئے راضی کرلیا۔ نرس کو 11 فروری 1963 کی صبح نو بجے پہنچنا تھا تاکہ وہ پلاتھ کی
اپنے بچوں کی دیکھ بھال میں مدد کر سکے مگر پہنچنے پر وہ فلیٹ میں داخل نہ ہوسکی آخر
کار چارلس لینگریج نامی ایک کاری گر کی مدد سے رسائی حاصل کرلی اور اس نے پلاتھ کو
تندور میں اپنے سر کے ساتھ مردہ پایا۔ نرس نے اس کے اور اس کے سوئے ہوئے بچوں کے درمیان
بہت کچھ حائل پایا۔
اس صبح سلویا پلاتھ اپنے نیچے والے پڑوسی ٹریور تھامس سے بھی پوچھا تھا کہ وہ کس وقت روانہ ہوگا (تاکہ کوئی اس کی بلائی گئی موت پر حاوی نہ ہو)۔ اس نے ایک نوٹ بھی چھوڑا جس میں اس نے میرے لئے لکھا کہ ”ڈاکٹر ہارڈر کو کال کریں“ اور میرا فون نمبر بھی شامل تھا۔ یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ وہ خط ایسے وقت چھوڑا گیا کہ جب تک ڈاکٹر کو کال کی جاتی سلویا جا چکی ہوتی!
سلویا پلاتھ کے ڈاکٹر انگلش ہارڈر نے مارچ 2000 میں بی بی سی کے ایک انٹرویو میں پلاتھ کے ڈپریشن کو پہچاننے میں ناکامی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنی نااہلی پر افسوس ہے میں تیس سال کا اور بیوقوف تھا مجھے دائمی طبی ڈپریشن کے بارے میں کیا معلوم تھا؟ اسے اس کی دیکھ بھال کے لیے کسی کی ضرورت تھی اور یہ وہ چیز نہیں تھی جو میں کر سکتا تھا!
سلویا پلاتھ کے خطوط اور سوسائڈ نوٹس:
یوں تو سلویا کے خطوط پر بہت تفصیلی بات کی جاسکتی ہے مگر کچھ خلاصہ یہاں ذکر ہے۔ 18 فروری 1960 اور 4 فروری 1963 کے درمیان، سلویا پلاتھ کی خودکشی سے ایک ہفتہ قبل، تیس سال کی عمر میں، اس نے اپنے قریبی دوست اور سابق نفسیاتی ماہر روتھ بیوشر کو واضح خطوط بھیجے۔ درمیانی سالوں میں ان دستاویزات کے ساتھ کیا ہوا ہے وہ Plath کی میراث میں ایک کیس اسٹڈی ہے۔ انیس سو ستر کی دہائی میں، چودہ خطوط، جن میں پلاتھ کی اس کے شوہر، انگریز شاعر ٹیڈ ہیوز سے علیحدگی کا تفصیل سے احاطہ کیا گیا ہے، بیوشر سے ہیریئٹ روزنسٹین کو منتقل کیے گئے، جو کہ پلاتھ کی سوانح حیات پر کام کر رہی تھیں۔ پلاتھ اسٹیٹ کے خوف سے، روزنسٹین نے کبھی کتاب شائع نہیں کی، اور خطوط، جو عوام کے لیے نامعلوم تھے، اس کی فائلوں میں موجود رہے۔ 2017 میں، انہیں ایک امریکی بک ڈیلر نے فروخت کے لیے پیش کیا خطوط کی تصاویر، اقتباسات کے ساتھ واضح طور پر پڑھنے کے قابل، آن لائن پوسٹ کیے گئے تھے، ان خطوط کے بقول سلویا پلاتھ نے اپنی والدہ کو جب وہ بیس سال کی تھیں لکھا: ”میں نے صبح کو خطوط کی ایک لہر لکھ کر گزاری ہے: ہر طرح کے، تمام سائز: پشیمان، ہم جنس پرست، محبت کرنے والے، تسلی دینے والے تمام تر خطوط لکھ ڈالے ہیں۔"
اسی طرح سلویا نے خطوط میں لکھا کہ:ٹیڈ ہیوز یعنی اس کے شوہر نے اسقاط حمل سے چند دن پہلے ”مجھے جسمانی طور پر مارا۔"
"مجھے لگتا ہے وہ مجھے مارنا چاہتا ہے“ اور ”اس نے مجھے کھلے عام کہا کہ وہ میری موت کی خواہش رکھتا ہے۔"
گو کہ اس خط کی باتوں کا دوسرا رخ سلویا کی بیٹی فریڈا نے پیش کیا اور اپنے والد کا دفاع کیا۔ 13 اکتوبر 1959 کو منگل کے روز، سلویا پلاتھ نے سراٹوگا اسپرنگس، نیویارک سے اپنی والدہ اور بھائی کو خط لکھاجس کا خلاصہ یہ تھا کہ: ”میں آج بہت افسردہ ہوں اور کچھ لکھنے سے قاصر بھی! اے ڈرانے والے دیوتا میں پہلے ہی مر گئی ہوں!"
بیوشر کو لکھے گئے اپنے آخری خط میں، جس کی تاریخ 4 فروری 1963، اس کی خودکشی سے کچھ دن پہلے سلویا پلاتھ نے طلاق کی اپیل کی اور لکھا: ”اب میں اس کے سائے سے نکلوں گی میں نے سوچا ہے میں ہی رہوں گی!"
سلویا کی شاعری کے نمونے:
سلویا کی شاعری کچھ نمونے جو اردو میں
ترجمہ کئے گئے ہیں یہاں مترجم کے نام کے ساتھ اتارے جارہے ہیں،مگر یاد رہے ہمیشہ مترجم
اس گہرائی کو بیان نہیں کرپاتا اور دورانِ ترجمہ اس بات تک نہیں پہنچ پاتا جو اصل فرد
اپنی عبوری زبان میں تخلیق کرتا ہے۔
عنوان: آئینہ
ترجمہ: ڈاکٹر خالد سہیل
میرے کوئی تعصبات نہیں ہیں
میرے کوئی تحفظات نہیں ہیں
مجھے جو بھی پیش کیا جاتا ہے
میں اسے پسند یا ناپسند کیے بغیر
قبول کر لیتی ہوں
میں ظالم نہیں ہوں
صرف سچ کہتی ہوں
میں دن بھر
سامنے کی دیوار کے نقش و نگار دیکھتی
رہتی ہوں
جو رات کو غائب ہو جاتے ہیں
اور اگلی صبح پھر نظر آنے لگتے ہیں
میں کبھی کبھار
ایک جھیل بن جاتی ہوں
جس میں ایک عورت اپنا عکس دیکھتی ہے
اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کرتی ہے
اور آنسو بہاتی ہے
وہ عورت
میری اہمیت و افادیت کو جانتی پہچانتی
ہے
وہ ہر صبح اپنا چہرہ مجھ میں دیکھتی
ہے
وہ صبح جو رات کی تاریکی کی کوکھ سے
پیدا ہوتی ہے
وہ جانتی ہے
کہ مجھ میں ایک الھڑ جوان لڑکی ڈوب گئی
تھی
اور اب
ایک غمزدہ بوڑھی عورت جنم لے رہی ہے!
عنوان: بارش کے موسم میں کالا کوا
ترجمہ: راشد سلیم
وہاں اوپر اک سخت ٹہنی پر
بھیگا کالا کوا کمر جھکائے بیٹھا ہے
بارش میں اپنے پیروں کو سنوارتے سمیٹتے
ہوئے
مجھے کسی معجزے یا حادثے کی توقع نہیں
جو مری آنکھ میں منظر کو بھڑکا دے
نہ ہی مجھے بے پروا موسم کے اندر
کسی سازش کی تلاش ہے
بس یہ گل دار پتے یوں ہی گرتے رہیں
بغیر کسی تقریب یا بد شگونی کے
مانا کہ بعض اوقات میں چاہتی ہوں
کہ گونگا آسمان کوئی جواب دے
مگر حقیقتاً میرا شکوہ کرنا نہیں بنتا
کوئی خفیف سی روشنی اب بھی
باورچی خانے کی میز یا کرسی سے
انتہائی تابانی کے ساتھ ابھر سکتی ہے
جیسے کوئی سماوی آگ کبھی کبھار
کند ترین اشیا پر قابض ہوجائے
اور یوں بہ صورتِ دیگر لاحاصل وقفے کو
مطہر کر دے
اسے اکرام و توقیر بخشے
بلکہ محبت عطا کر دے
بہر حال اب میں پیدل چلتے ہوئے دھیان
رکھتی ہوں
(کیوں کہ اِس غیر روشن،خستہ حال منظر میں بھی ایسا ہو سکتا ہے (
اب میں چلتی ہوں تشکیک مگر زیر کی کے
ساتھ
ہر اس چیز سے بے خبر
جیسے فرشتہ مرے آس پاس
بھڑکا نے کی کوشش کرے
مجھے تو بس اتنا پتا ہے کہ کالے پر سنوارتا
ہوا کوّا
اس قدر چمک دار ہو سکتا ہے
کہ میرے حواس کو اپنی گرفت میں لے لے
میرے پپوٹوں کو اپنی طرف راغب کر لے
اور چند ثانیوں کے لیے
مکمل غیر جانب داری کے خوف سے
مجھے نجات دلا دے
اگر قسمت ساتھ رہی
تو تھکن کے اس موسم میں
خود سری سے گھسٹتے ہوئے
میں ایک طرح کی آسودگی کا
پیوند لگا لوں گی
معجزے رونما ہوتے ہیں
بہ شرط یہ کہ آپ ضو فشانی کی اِن چالوں
کے
مختصر دوروں کو
معجزے قرار دینے کا تردّد کریں!
انتظار دوبارہ شروع ہو چکا ہے
اس فرشتے کا لمبا انتظار
جو کبھی کبھار اتفاقاً اترا کرتا ہے!
عنوان: بابا
ترجمہ: آمنہ رضا عباسی
تم اب نہیں کرتے! نہیں کرتے!
اور بھی اے کالے جوتے
جس میں، میں رہی ایک پاﺅں کی صورت
تیس سال، غریب اور سفید
ڈر ڈر کے سانس لیتے اور چھینکتے
بابا! میں نے تم کو مار ڈالا
پر تم مرگئے اس سے پہلے کہ مجھے موقع
ملتا
سنگ مرمر کے خدا!
بھیانک مجسمہ سرمئی انگوٹھے والا
سان فرانسسکو کی پانی کی بلی جتنا بڑا
لیکن سر بحر اوقیانوس میں سمایا ہوا
جہاں نیلے نیلے پانیوں پہ سبز برسات
ہوتی ہے
دل کش بحر نوزیٹ کے ساحل کے پار
میں نے خدا سے تم کو دوبارہ مانگا
آہ،تم
جرمن زبان میں، اس پولش گاؤں میں
جو رولر سے تہ تیغ کردیا گیا
جنگ و جدل میں
پر اس گاؤں کا نام تو بہت عام ہے
میرا پولاک دوست
کہتا ہے کوئی درجن بھر ہیں
سو میں کھبی نہ بتا پائی کہ
تمہاری جڑیں کدھر تھیں تمہارا اصل کہاں
تھا
میں تو کھبی صحیح لہجے میں تم سے بات
بھی نہ کرپائی
میری زبان ہمیشہ جبڑے میں پھنس جاتی
تھی
جیسے پھنس گئی ہو ایک خاردار تار کے
پھندے میں
میں، میں، میں، اش، اش، اش
میں تو بمشکل بول پاتی
میں سوچتی تھی ہر جرمن تم ہو
اور زبان بیہودہ
ایک انجن
مجھے دھونکتا ہوا،جیسے میں یہودی ہوں
داخاﺅ، آﺅشوتوٹز، بیلسن کی یہودی
میں اب بولتی بھی یہودیوں کی طرح ہوں
میں سوچتی ہوں شاید میں یہودی ہی ہوں
ٹائرول کی برف باری، ویانا کی شفاف شراب
اتنی بھی پاکیزہ یا سچی نہیں
میری خانہ بدوش پردادی اور میری عجیب
قسمت
میری قسمت بتانے والی تاش کی گڈی اور
میرا ٹیروٹ پیک
میں شاید تھوڑی بہت یہودی ہوں
میں ہمیشہ ہی خوفزدہ رہی تم سے
بھلے ہو لفٹواف وہ ہوائی اسلحہ یا گوبلڈیگو
اور تمہاری ستھری مونچھیں
اور نیلی نیلگوں آرین آنکھیں
پانزر مین، بکتر بند گاڑی کا چلانے والے،
پانزر مین، ہاں تم
خدا نہیں پر سواستیکا
گھپ اندھیر کہ آسمان بھی دکھائی نہ دے
سیاہ
ہر عورت فاشسٹ پہ مرتی ہے، کیا وحشت؟
چہرے پہ بوٹ، اے وحشت!
تمہارے جیسے بے رحم دل کی وحشی وحشت
تم کھڑے ہو بلیک بورڈ پہ بابا
اس تصویر میں جو میرے پاس ہے
ٹھوڑی میں دراڑ ہے، پیر کے بجائے
لیکن کسی شیطان سے ہرگز کم نہیں، بالکل
نہیں
نہ اس کالے سے جس نے
میرا خوبصورت سرخ دل توڑ کے دو کردیا
میں دس سال کی تھی جب انہوں نے تم کو
دفنایا
بیس، جب میں نے خود مرنے کی کوشش کی
تاکہ تمہارے پاس واپس واپس واپس لوٹ
سکوں
میں سمجھی تھی شاید ہڈیوں سے ہی کام
چل جائے
لیکن انہوں نے مجھے تھیلے سے باہر نکال
لیا
اور گوند سے دوبارہ جوڑ دیا
پھر میں سمجھ گئی کہ مجھے کیا کرنا ہے
میں نے تمہارا سانچہ بنایا
Meinkampf انداز والا سیاہ سوٹ میں ملبوس آدمی
ریک اور کیل (آلات تشدد) کا دلدادہ
اور کہا،مجھے قبول ہے !مجھے قبول ہے!
بالآخر بابا! اب بس ہوگئی ہے
وہ کالا ٹیلیفون جڑ سے اکھاڑ پھینکا
ہے
اور اس سے اب کوئی آواز نہیں آتی
اگر میں نے ایک آدمی مار ڈالا، تو میں
نے دو مار ڈالے
وہ ویمپائر جس نے کہا تھا وہ تم ہو
اور میرا خون چوستا رہا سال بھر
سات سال، اگر تم جاننا چاہو
بابا تم اب واپس لیٹ سکتے ہو
تمہارے موٹے کالے بھدے دل میں میخ گڑی
ہے
اور گاﺅں والے کبھی تمہیں پسند نہیں کرتے تھے
وہ ناچ رہے ہیں اور تمہیں پیروں تلے
روند رہے ہیں
انہیں ہمیشہ سے پتہ تھا کہ وہ تم ہو
بابا! بابا! حرامی! در فٹے منہ!
٭٭٭
نوٹ: یہ جمع و ترتیب اور بیانیے ان مختلف جگہوں سے میں نے جمع کی ہیں۔
٭انٹرنیٹ + وکی پیڈیا
٭نیو یارک ٹائم میگزین
٭روزنامہ دنیا سے وقار احمد ملک کا کالم
٭دی نیو یارک
٭فیس بک گروپ عالمی افسانوی ادب
٭ڈاکٹر خالد سہیل کے کالم
٭اور کچھ مطالعہ!!
کوئی تبصرے نہیں