بجھتے جذبوں کی راکھ پر…….شرر
جناب عرفان عابدی کا مجموعہ دل زمین آپ کے ہاتھوں میں ہوگا۔ میں نے اس افسانوی مجموعے کی چند کہانیاں پڑھی ہیں اور اس سے قبل بھی عرفان عابدی کے کئی افسانے میرے زیر مطالعہ رہے ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعے ”انسانوں کی تازہ فصل“ کے تمام افسانوں کا مطالعہ بھی میں نے کیا ہے۔
عرفان عابدی زود نویس نہیں
اس لیے وہ اس ہنر کو آزماتے ہیں کہ کم سے کم الفاظ میں بڑی سے بڑی بات بھی اس انداز
میں کہہ دی جائے کہ حسن تکلم بڑھتا ہی چلا جائے۔
عرفان کے افسانوں میں ایک
اور خوبی بھی میں نے پائی ہے کہ وہ الفاظ سے کھیلنے کے بجائے سیدھے سبھاؤ اپنی بات اس طرح کہہ جاتے
ہیں کہ قاری سمجھتا ہے یہ اس کی اپنی ہی روداد ہے کیوں کہ ہر انسان کی زندگی کے ساتھ
ایک نہیں کئی کئی کہانیاں اسے گھیرے میں لے کر اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ عرفان ان
کہانیوں میں آج کے معاشرتی مسائل سے بحث کرتے ہوئے کچھ ایسی فضا بناتے ہیں کہ قاری
کے ذہن میں کئی سوالات از خود جنم لیتے ہیں اور انھیں موقع ملتا ہے کہ اپنے شعور سے
کام لے کر ان سوالات کا حل بھی تلاش کر لیں۔
عرفان عابدی کے افسانوں میں ایک خوبصورت تکنیک یہ بھی ملتی ہے کہ افسانہ ایک ہی نشست میں خود کو پڑھوانے کا متقاضی ہوتا ہے۔ یہ ایک افسانے کا اعلیٰ ترین مقام ہے۔ جہاں قلم کار اپنے ہنر کی ایسی جولانیاں دکھاتا ہے جس میں کہانی زندہ جاوید ہو جاتی ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ آج کے
مصروف دور میں بھی انسان تنہائی کا شکار ہے۔ اسے اتنی فرصت ہی نہیں کہ غم روزگار سے
نبرد آزما ہونے کے بعد وہ کسی دوست اور کسی اپنے سے ملاقات کرسکے۔ ایسے میں ایک انسان
اگر وہ فنکار ہے تو اس کا قلم اس کا بہترین ساتھی بن جاتا ہے، اس کا ہمراز بن جاتا
ہے اور وہ اپنے جیسے دوسرے تنہا انسانوں کو زندگی سیدھے سبھاؤ سے گزارنے کی راہ دکھاتا
ہے اور اس کا رہنما بن جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو تنہائی ایک ناسور بن کر انسان کے
اندر ہی اندر اس طرح پھیل جاتی ہے کہ وہ گھٹن کا شکار ہو کر سسکنے لگتا ہے۔ اور ایک
بار ہی مر جانے کے بجائے لمحہ لمحہ مرتا ہے۔ جیسے تپتے ہوئے صحرا میں کوئی پیاسا بے
آب سسکتے ہوئے جبراً زندگی سے اپنا ناطہ توڑتا ہے۔
لکھنے کا فن بھی اللہ تعالیٰ
کی عنایت ہے، رحمت ہے، نوازش اور عطیہ ہے۔ یہ عطیہ، یہ نوازش سب کو نصیب نہیں ہوتی
ہم جس زمانے میں سانس لے رہے ہیں وہ زمانہ کچھ زیادہ ہی بے رحم ہو چکا ہے ایسے میں
ہنرمند قلم کار ہی ہمارے تمام زخموں کا مرہم بن جاتے ہیں اور یہ بھی خدائے واحد کا
کرم ہے کہ اس نے آج کے دور میں ایسے انسان باقی رکھے ہیں جو ان فنکاروں کی سرپرستی
کرتے ہیں ورنہ ایک قلم کار کے بس میں کہاں کہ وہ اپنی اور اپنے خاندان کی گاڑی کے پہیوں
کو رواں دواں رکھنے کے ساتھ ساتھ کہانیاں لکھے، شعر کہے اور ان کی طباعت کا انتظام
بھی کرے۔ اس موقع پر اشرف نقوی کا شعر عرفان پر صادق ہوتا نظر آتا ہے۔
مجھ شرر کو ہمیشہ رہنا ہے |
بجھتے جذبوں کی راکھ پر موجود |
اس خوبصورت اور انمول موقع
پر عرفان عابدی کے افسانوں کا مجموعہ کتابی شکل اختیار کرنے جا رہا ہے میں انھیں دل
کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے حوصلوں کو بلندی
اور استقامت عطا کرے۔
کوئی تبصرے نہیں